پاکستان ایک ’’نظریاتی تاج محل‘‘ تھا، پاکستان کے حکمران طبقے نے اسے ایک ’’نظریاتی جھگی‘‘ میں تبدیل کردیا۔ قائداعظم نے ہمیں ’’پورا پاکستان‘‘ دیا تھا، پاکستان کے حکمران طبقے نے اسے ’’آدھا پاکستان‘‘ بنادیا۔ پاکستان سیاسی، معاشی اور سماجی امکانات کی گنگا تھا، پاکستان کے حکمران طبقے نے اسے سیاسی، معاشی اور سماجی ’’اندیشوں کی جمنا‘‘ میں ڈھال دیا۔ قائداعظم کی ’’کامیابی‘‘ ہمہ گیر تھی، پاکستان کے حکمران طبقے کی ’’ناکامی‘‘ ہمہ گیر ہے۔
پاکستان کے ’’نظریاتی تاج محل‘‘ ہونے کی بات مذاق نہیں۔ 20 ویں صدی میں قوم کی تعریف نسل، زبان اور جغرافیے سے متعین ہورہی تھی اور مولانا مدنیؒ تک فرما رہے تھے کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں، مگر برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ نے کہا کہ ہمارا تشخص وطن یا جغرافیے سے نہیں،کلمۂ طیبہ سے متعین ہوتا ہے، اسلام سے وضع ہوتا ہے۔ روس 1917ء میں سوشلسٹ انقلاب کو گلے لگا چکا تھا اور آدھی دنیا سوشلزم کے زیر اثر جاچکی تھی۔ یہاں تک کہ پنڈت نہرو بھی سوشلزم کے ساتھ ’’رومانس‘‘ لڑا رہے تھے۔ 1936ء میں برصغیر کے اندر ترقی پسند تحریک شروع ہوچکی تھی اور ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی بڑی تعداد اچانک ’’ترقی پسند‘‘ ہوگئی تھی، مگر برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ نے اپنے تشخص کے حوالے سے سوشلزم کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھا۔ اسے اپنے اجتماعی تشخص کے حوالے سے صرف ایک ہی چیز روح کی گہرائیوں تک متاثر کررہی تھی… اسلام اور صرف اسلام۔ بلاشبہ اقبال اور قائداعظم برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کے محسنوں میں سے ہیں، مگر اسلام نہ ہوتا تو دس اقبال اور بیس محمد علی جناح بھی پاکستان نہیں بنا سکتے تھے۔ خود اقبال اور محمد علی جناح پر اسلام کا احسان ہے۔ اقبال ابتدا میں داغؔ کے شاگرد اور ’’قوم پرست‘‘ شاعر تھے، مگر اسلام نے انہیں حکیم الامت اور شاعرِ مشرق بنادیا۔ محمد علی جناح کبھی صرف ایک وکیل اور کانگریس کے ایک رہنما تھے، مگر اسلام نے انہیں ’’قائداعظم‘‘ بنادیا۔ قائداعظم کے سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ نے قائداعظم کے بارے میں کہا ہے کہ تاریخ میں کم لوگوں نے جغرافیہ بدلا ہے، اس سے بھی کم لوگ ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑا ہے، اور تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے قومی ریاست قائم کی ہو۔ قائداعظم نے بیک وقت یہ تینوں کام کیے۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے، مگر قائداعظم نے یہ کام کیسے کیے؟ لینن کی طاقت سوشلزم تھا، اُس نے مارکس کے سوشلسٹ نظریات کی بنیاد پر روس میں انقلاب برپا کیا۔ مائوزے تنگ نے کمیونزم کی بنیاد پر چین میں انقلاب برپا کیا۔ فرانس کے انقلاب کی پشت پر والٹیئر اور روسو کے نظریات تھے۔ محمد علی جناح کی طاقت اسلام تھا۔ اسلام نہ ہوتا تو قائداعظم مذکورہ بالا تینوں کاموں میں سے کوئی کام نہیں کرسکتے تھے۔ پاکستان انہی معنوں میں ’’نظریاتی تاج محل‘‘ تھا۔ ایک ایسا ملک جسے اسلام کی قوت ’’عدم‘‘ سے ’’وجود‘‘ میں لائی تھی۔ کیا 6 ہزار سال کی معلوم تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے جب ملک کہیں اور بن رہا ہو اور اس کی تخلیق کی جدوجہد کہیں اور ہورہی ہو؟ قیام پاکستان کے حوالے سے ایسا ہی ہوا۔ پاکستان بنگال، پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان میں بن رہا تھا اور اس کے قیام کی تحریک دِلّی، یوپی اور سی پی میں چل رہی تھی۔ حالانکہ دِلّی، یوپی اور سی پی کے مسلمانوں کو معلوم تھا کہ انہیں پاکستان کے قیام سے نہ کوئی سیاسی فائدہ ہوگا، نہ معاشی اور سماجی فائدہ۔ مگر ’’اسلامی ریاست‘‘ کے قیام کا ’’خواب‘‘ ان سے کہہ رہا تھا کہ ’’نظریاتی فائدہ‘‘ ’’ذاتی فائدے‘‘ سے بہت بڑی چیز ہے۔ پاکستان ان معنوں میں بھی ایک ’’نظریاتی تاج محل‘‘ تھا۔ مگر افسوس پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں نے ’’نظریاتی تاج محل‘‘ کو ’’نظریاتی جھگی‘‘ بناکر کھڑا کر دیا۔ کہاں تاج محل کی ’’نظریاتی امارت‘‘ اور کہاں ’’نظریاتی جھگی‘‘ کی ’’عسرت و غربت‘‘۔ کہاں تاج محل کا ’’جمال‘‘ اور کہاں جھگی کے ’’پچکے ہوئے گال‘‘۔ کہاں نظریاتی نعمت خانہ اور کہاں نظریاتی کباڑ خانہ۔
بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران یا تو پاکستان کے نظریے کے ’’باغی‘‘ ہیں، یا نظریاتی اعتبار سے ’’داغی‘‘ ہیں۔ جنرل ایوب سیکولر تھے اور انہیں اپنے سیکولر ہونے پر فخر تھا۔ انہوں نے اپنے دس سالہ دور میں اسلام کو ہر اعتبار سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ جنرل یحییٰ بھی سیکولر تھے۔ جنرل پرویز نے نائن الیون کے بعد روشن خیالی کا لباس زیب تن کرلیا اور ان کے لیے اسرائیل کے صدر کو دعا کرتے ہوئے پایا گیا۔ بھٹو صاحب نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ ایجاد کرکے اسلام اور سوشلزم دونوں کو بدنام کیا۔ بے نظیر کی پوری سیاست سیکولرازم اور لبرل ازم کے گرد گھومتی تھی۔ میاں نوازشریف نے ثابت کیا ہے کہ وہ نظریاتی اعتبار سے ’’He‘‘ ہیں نہ ’’She‘‘ ہیں۔ ان کا دین ایمان صرف ذاتی اور خاندانی مفاد ہے۔
جنرل ضیاء نے بلاشبہ اسلام کا نام لیا۔ اُن کے ذاتی کردار میں مذہب کا رنگ موجود تھا، مگر ان کا سیاسی اور ریاستی کردار اسلام کے حوالے سے ’’داغی‘‘ ہے۔ عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں مگر انہیں نہ ریاست کا مفہوم معلوم ہے، نہ وہ مدینہ کے معنی سے آگاہ ہیں۔ اندیشہ ہے کہ وہ ریاست مدینہ کے Ideal کو اتنا نقصان پہنچا دیں گے کہ پھر کوئی شخص ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگانے کے قابل بھی نہیں رہے گا۔
نظریاتی ریاستوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ نظریاتی ریاست میں صرف ریاست کا نظریہ بالادست ہوتا ہے۔ اس کے حریف نظریے کا نام بھی ریاست کی فضا میں نہیں گونج سکتا۔ گورکی روس کا عظیم اور کمیٹڈ ادیب تھا مگر اس کے تعلقات لینن کے ساتھ کشیدہ رہتے تھے، یہاں تک کہ لینن نے ایک بار کہا کہ روس میں انقلاب کے بعد انسانیت اپنی فتح کا جشن منائے گی تو مجھے نہیں معلوم کہ وہ گورکی کا ذکر کن الفاظ میں کرے گی؟ گورکی نے کہا کہ اگر انقلاب لانے والے انسان ہوں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ میرا ذکر احترام سے کریں گے، اور اگر وہ انسان ہی نہیں ہوں گے تو مجھے اس کی فکر نہیں کہ وہ میرا ذکر کن الفاظ میں کریں گے۔ ٹروٹسکی روس کا انقلابی دانش ور تھا، مگر اسے مارکسزم کی تشریح و تعبیر پر قیادت کے ساتھ اختلاف تھا، لیکن اس کے ’’اختلاف‘‘ تک کو برداشت نہ کیا گیا اور ٹروٹسکی کو روس سے فرار ہونا پڑا۔
روس کے عظیم ادیب سولیزے نیتسن کو بھی محض نظریاتی اختلاف کی وجہ سے زیر زمین جانا پڑا ور بالآخر ملک چھوڑنا پڑا۔ آپ امریکہ اور یورپ میں آزادی، جمہوریت اور مساوات کے تصورات کا مذاق اڑا کر امریکہ اور یورپ میں نہیں رہ سکتے۔ مگر پاکستان میں پاکستان کے حکمرانوں نے ملک کے نظریے کو اتنا حقیر بنادیا کہ علماء اور اسلامی جماعتوں کو اسلامی آئین وضع کرنے کے لیے طویل جدوجہد کرنی پڑی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ویٹی کن میں پوپ کی بالادستی کے لیے جدوجہد کی جائے۔ اس صورتِ حال نے بھی پاکستان کو نظریاتی تاج محل سے نظریاتی جھگی میں ڈھالا۔ پاکستان کی تخلیق اور ابھار اتنا معجزاتی تھا کہ پاکستان کے نظریاتی اثرات اور جغرافیے دونوں میں وسعت پیدا ہونی چاہیے تھی۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کو مزید وسیع کرنے کے بجائے اسے 1971ء میں آدھا کردیا۔ مشہور بات یہ ہے کہ قائداعظم کا انتقال 11 ستمبر 1948ء کو ہوا، مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم کا انتقال 16 دسمبر 1971ء کو ہوا۔ اس دن ان کا پورا پاکستان آدھا رہ گیا۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اتنا سفاک اور اتنا بے حیا ہے کہ اس کا بس چلتا تو وہ پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کا جشن مناتا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے نہ سقوطِ ڈھاکا کو یاد رکھا، نہ اس سے کوئی سبق سیکھا۔ ہم نے سقوطِ ڈھاکا سے کچھ سیکھا ہوتا تو آج پاکستان دنیا کے طاقت ور ترین ممالک میں سے ایک ہوتا۔ بہتر حکمران صدمات کو بھی قوتِ محرکہ میں ڈھال لیتے ہیں۔ جاپان کے حکمرانوں نے امریکہ کے سامنے ہتھیار بھی ڈالے تھے اور ان کی قوم پر دوبار ایٹم بم بھی گرائے گئے تھے، مگر اس کے باوجود بلکہ اس صدمے کی وجہ سے جاپان معاشی اعتبار سے سہی، پہلے سے زیادہ طاقت ور بن کر ابھرا۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے ’’نظریے‘‘ کو قوتِ محرکہ نہیں بنایا تو وہ شکست اور صدمے کو کیا قوتِ محرکہ بناتے! کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کا جو حکمران طبقہ مشرقی پاکستان کو ’’معاشی بوجھ‘‘ کہتا تھا، آج اسی سابق مشرقی پاکستان کی برآمدات پاکستان سے زیادہ ہیں، یہاں تک کہ اُس کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی پاکستان کے ذخائر سے زیادہ ہیں۔ ٹیکسٹائل ہماری صنعت تھی مگر اسے فروغ بنگلہ دیش میں حاصل ہورہا ہے۔
پاکستان پہلے دن سے فوجی آمریت اور جمہوریت کی رزم گاہ بنا ہوا ہے، مگر کتنی عجیب بات ہے کہ ہماری فوجی آمریت بھی بانجھ ہے اور جمہوریت بھی دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ جمہوری اعتبار سے فوجی آمریت بری چیز ہوگی مگر آمریت نے کئی ملکوں کو توانا بنایا ہے۔ سنگاپور ایشیا کا لیاری تھا مگر لی کوآن کی آمریت نے اسے ’’جدید‘‘ بھی بنایا، ’’تعلیم یافتہ‘‘ بھی بنایا، ’’خلاق‘‘ بھی بنایا اور معاشی اعتبار سے مضبوط بھی بنایا۔ ملائشیا کی ساری ترقی مہاتیر محمد کی ’’سول آمریت‘‘ کا حاصل ہے۔ چین کی حیرت انگیز معاشی ترقی کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی آمریت کا نتیجہ ہے۔ مگر پاکستان کی کوئی آمریت پاکستان کو نہ ’’جدید‘‘ بناسکی، نہ تعلیم یافتہ کرسکی، نہ ’’خلاق‘‘ بناسکی اور نہ وہ پاکستان کو معاشی اعتبار سے توانا کرسکی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف کے دور میں ہماری معیشت قدرے مستحکم رہی۔ مگر ان ادوار میں ہمیں امریکہ سے بڑے پیمانے پر معاشی اور فوجی امداد ملی۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے کی جمہوریت بھی ’’بنجر‘‘ ہے۔ چنانچہ اس جمہوریت کی سرزمین پر بھی آج تک کچھ نہیں اُگ سکا۔ نہ اس پر اسلام فروغ پاسکا، نہ سوشلزم کاشت ہوسکا، نہ جدیدیت کی فصل لہلہا سکی، نہ آزادیٔ رائے پنپ سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے سوا نہ ملک کی کوئی جماعت حقیقی معنوں میں سیاسی ہے، نہ جمہوری۔ پیپلزپارٹی بھٹو خاندان کا رومال ہے۔ نواز لیگ شریف خاندان کا ٹشوپیپر ہے۔ پی ٹی آئی عمران خان کا دستانہ ہے۔ ایم کیو ایم 35 سال تک الطاف حسین کی پستول تھی۔ چنانچہ یہ جماعتیں ملک و قوم کو کچھ اور کیا جمہوریت بھی نہیں دے سکیں۔ سوال یہ ہے کہ جس ملک کے حکمران طبقے کی آمریت بھی جعلی ہو اور جمہوریت بھی جعلی ہو وہ ملک کیسے توانا اور ترقی یافتہ ہوگا؟
اسلام کے تناظر میں اقتصادی ترقی و خوشحالی ایک ’’معمولی ہدف‘‘ ہے، مگر ہمارا حکمران طبقہ ’’معاشی ترقی‘‘ کو 70 سال سے بت کی طرح پوج رہا ہے، مگر پاکستان کے سول اور فوجی حکمران ملک و قوم کو معاشی اور سماجی اعتبار سے بھی کچھ نہ بناسکے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ملک کو قائم ہوئے 71 سال ہوگئے مگر آج ملک کی آدھی آبادی ناخواندہ ہے، ہمارے ڈھائی کروڑ بچے اسکول میں داخل نہیں ہوپاتے۔ ملک کو قائم ہوئے 71 سال ہوگئے مگر آج بھی ملک کی 70 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں۔ ملک کی 70 فیصد آبادی بیمار پڑتی ہے تو اس کو علاج کی مناسب سہولت دستیاب نہیں ہوپاتی۔ ملک کی آبادی 21 کروڑ ہے اور 6 کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے کھڑے ہیں۔ ملک پر 90 ارب ڈالر کے قرض کا بوجھ ہے۔ اس بوجھ کو تمام فوجی اور سول حکمرانوں نے بڑھایا ہے اور عمران خان آئی ایم ایف سے 12 ارب ڈالر کا قرض لے کر اس قرض کو سینچری کرنے کا موقع فراہم کرنے ہی والے ہیں۔ ہماری معیشت کا یہ حال ہے کہ عمران خان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے چند روز پیشتر ہی فرمایا ہے کہ ہمارے پاس دو امکانات ہیں، ایک یہ کہ ہم آئی ایم ایف سے قرض لے لیں، اور دوسرا یہ کہ ہم دیوالیہ ہونا قبول کرلیں۔ اقتصادی ماہرین بتارہے ہیں کہ ملک میں گرانی کی سطح بلند ہوگئی ہے، افراطِ زر کی شرح 6 فیصد سے ساڑھے 9 فیصد تک جاپہنچی ہے، اسٹاک مارکیٹ مندی کا شکار ہے۔ اس صورتِ حال نے عمران خان کے ذہنی توازن کو اتنا متاثر کردیا ہے کہ وہ کہیں شیخ چلی کی طرح “Act” کررہے ہیں، اور کہیں فہم و شعور سے بے نیازی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ان کے شیخ چلی پن کی شہادت یہ ہے کہ انہوں نے چند روز پیشتر کہاکہ کراچی کے قریب سمندر میں جو ڈرلنگ ہورہی ہے اس سے تیل اور گیس کے وسیع ذخیرے کے میسر آنے کا امکان ہے اور ایسا ہوگیا تو پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی۔ مگر فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ عمران خان کی ذہنی حالت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے وفاقی کابینہ میں ایم کیو ایم کے وزرا خالد مقبول صدیقی اور فروغ نسیم کو ’’نفیس ترین‘‘ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ آئندہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم مل جل کر انتخاب لڑیں گی۔ عمران خان کے اس بیان کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ کا نعرہ الطاف حسین مُردہ باد، ایم کیو ایم زندہ باد کھڑا ہے۔ مگر عمران خان نے جو کچھ کہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں جس طرح ریاست مدینہ کا مفہوم معلوم نہیں اسی طرح انہیں ’’تہذیب‘‘ اور ’’نفاست‘‘ جیسے الفاظ کے معنی بھی معلوم نہیں۔ ڈی جی رینجرز سندھ نے کچھ عرصہ پہلے اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ کراچی میں گزشتہ 35 سال کے دوران 92 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ یہ عرصہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست کا عرصہ ہے، اور 92 ہزار افراد کی ہلاکت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ایم کیو ایم کتنی ’’مہذب‘‘ اور کتنی ’’نفیس‘‘ ہے، مگر جس طرح اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کے جرائم کو پھلانگ کر کھڑی ہوگئی ہے اسی طرح عمران خان بھی 92 ہزار بے گناہ افراد کی ہلاکت کو پھلانگ کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ اس سے جہاں عمران خان کی ذہنی حالت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے وہیں اس سے یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے کا ذہنی و نفسیاتی کلچر کیا ہے۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے جرائم اپنی جگہ، مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ایم کیو ایم کو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی نے بھی ہمیشہ ایم کیو ایم کو اقتدار میں شریک کرکے اسے سیاسی تحفظ مہیا کیا ہے۔ بدقسمتی سے اب یہی کام عمران خان ’’نفاست‘‘ کے نام پر کررہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے سامنے قائداعظم کی ہمہ گیر ’’کامیابی‘‘ تھی، اور ایک وقت یہ ہے کہ ہمارے سامنے پاکستان کے حکمران طبقے کی ہمہ گیر ’’ناکامی‘‘ ہے۔ جو طبقہ جرائم پیشہ لوگوں کو جرائم پیشہ بھی نہ کہہ سکے بلکہ انہیں ’’معزز‘‘، ’’مکرم‘‘ اور ’’مہذب‘‘ باور کرانے پر تلا ہوا ہو، اس کے مذہب، اس کی تہذیب، اس کے اخلاق، اس کے کردار، اس کی حب الوطنی، اس کی قوم پرستی اور اس کے ذہنی سانچے کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اس منظرنامے کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ملک کی فوجی اور سول قیادت بھی ناکام ہے اور پیپلزپارٹی، نواز لیگ اور تحریک انصاف بھی ناکام ہیں۔ نہ جرنیل ملک و قوم کو کچھ دے سکتے ہیں، نہ نوازشریف، بھٹو خاندان اور عمران خان ملک و قوم کو کچھ دے سکتے ہیں۔ حالانکہ ملک میں جتنے مارشل لا لگے، ’’تبدیلی‘‘ کے نام پر لگے۔ بھٹو صاحب، نوازشریف اور عمران خان بھی تبدیلی کے نام پر اقتدار میں آئے، مگر تمام حکمران بالآخر تبدیلی کی ضد ثابت ہوئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے میں نہ کوئی حقیقی معنوں میں مذہبی ہے، نہ حقیقی معنوں میں سوشلسٹ، سیکولر، لبرل، جمہوری، ملک پرست اور قوم پرست ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اس کے پاس ملک چلانے کی اہلیت بھی نہیں ہے۔ اس صورتِ حال میں جماعت اسلامی کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے، اس لیے کہ اس منظرنامے میں اس بات کا امکان ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کے تمام حکمرانوں کی مدلل تنقید لے کر اٹھے اور قوم کو بتائے کہ اس پر 70 سال سے جو حکمران مسلط ہیں ان کی ہر چیز جعلی ہے۔ چنانچہ ملک و قوم کا واحد امکان صرف جماعت اسلامی ہے۔ یہ محض نعرہ نہیں ہے، جماعت اسلامی کا ایک نظریہ ہے۔ جماعت اسلامی ملک کی واحد جمہوری و سیاسی جماعت ہے۔ ملک کی بڑی جماعتیں اور جرنیل اقتدار میں آکر بھی ملک و قوم کی خدمت نہیں کرتے۔ جماعت اسلامی 70 سال سے اقتدار میں آئے بغیر ملک و قوم کی خدمت کررہی ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت کے دامن پر بدعنوانی کا داغ نہیں ہے۔ نہ اس پر کسی فرد کا غلبہ ہے۔ یہ جماعت اسلامی کے ’’مقدمے‘‘ کا صرف ’’اجمال‘‘ ہے۔ اس کی تفصیل بہت دور تک جاسکتی ہے، اور جماعت اسلامی اس کے حوالے سے قوم میں امید کی فصل کاشت کرسکتی ہے۔ لیکن یہ کام جماعت اسلامی کو صرف اپنے تشخص کی بنیاد پر کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے حوالے سے کسی کی بغل بچہ یا اتحادی ہونے کا تاثر جماعت اسلامی کی ایسی جدوجہد کے لیے زہر ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ نظریاتی جدوجہد نہ کبھی بھان متی کے کنبے سے ہوئی ہے، نہ مفاداتی اتحادوں سے۔ نظریاتی جدوجہد ہمیشہ ایک مرکز، ایک فکر اور ایک رنگ کا تقاضا کرتی ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے کی ہمہ گیر ناکامی نے ملک میں نظریاتی جدوجہد کی ضرورت اور تقاضے کو بہت ابھار دیا ہے۔