قائداعظم کے ’’اسلامی‘‘ اور ’’عوامی پاکستان‘‘ پر جرنیلوں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کا قبضہ
آج کے موضوع پر گفتگو سے پہلے ہمیں قائداعظم کے چار ارشادات سے ہو کر گزرنا ہو گا۔ قائداعظم نے فرمایا:
“Social Justice is one of the fundamentals of Islam”
ترجمہ: ’’سماجی انصاف اسلام کے بنیادی تصورات میں سے ایک تصور ہے۔‘‘
قائداعظم نے مزید فرمایا:
“It is not our purpose to make the rich richer and to accelerate the process of the accumulation of wealth in the hands of a few individuals.
We Should aim at levelling up the general standard of living amongst the masses and I hope your committee will pay due attention to this very important question.
Our ideal should not be capitalistic, but Islamic and the interests and weelfare of the people as a whole should be kept constantly in mind.”
ترجمہ: ’’ہمارا مقصد امیروں کو امیر تر بنانا اور دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز کرنا نہیں ہے، ہمیں لوگوں کے عمومی معیارِ بود و باش کو بہتر بنانا چاہیے۔ مجھے امید ہے آپ کی یعنی مسلم لیگیوں کی کمیٹی اس سوال پر خاطرخواہ توجہ دے گی۔ ہمارے آئیڈیل کو سرمایہ دارانہ نہیں اسلامی ہونا چاہیے، اور ہمیں عوام کے مفادات اور فلاح و بہبود کو مسلسل ذہن میں رکھنا چاہیے۔‘‘
ایک موقع پر قائداعظم نے ارشاد کیا:
“I am an old man,” Continued Mr.Jinnah.” God has given me enough to live comfortably at this age. Why would I turn my blood into water, run about and take so much trouble? Not for the capitalists, surely, but for you- the poor people.”
ترجمہ: ’’میں ایک بوڑھا آدمی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس عمر میں آرام دہ زندگی بسر کرنے کے بڑے وسائل دے رکھے ہیں۔ چنانچہ میں کیوں اپنے خون کو پانی کرتا ہوں؟ میں کیوں بھاگا پھرتا ہوں اور فکرمند رہتا ہوں؟ یقیناً سرمایہ داروں کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے غریب عوام کے لیے۔‘‘
آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے کہا:
“Here I should like to give a warning to the landlords and capitalists who have flourished at our expense by a sysytem which is so vicious, which is so wicked and which makes them so selfish that it is difficult to reason with them.”
“The exploitation of the masses has gone into their blood. They have forgotten the lesson of Islam. …I visited some villages. There are millions and millions of our people who hardly get one meal a day. Is this civilization? Is this the aim of Pakistan?”
ترجمہ: ’’میں یہاں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو خبردار کرتا ہوں۔ ان طبقات نے ہماری قیمت پر ایک ایسا گھنائونا اور شیطانی نظام وضع کرلیا ہے جس نے ان طبقات کو خودغرض بھی بنادیا ہے اور اس کی وجہ سے ان طبقات کے ساتھ بات کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ عوام کا استحصال ان طبقات کے خون میں شامل ہوگیا ہے اور یہ لوگ اسلام کا سکھایا ہوا سبق بھول گئے ہیں۔ میں نے دیہات کے دورے پر دیکھا ہے کہ ہمارے لاکھوں لوگوں کو دن میں ایک وقت کا کھانا بھی مشکل سے دستیاب ہوتا ہے۔ کیا یہی تہذیب ہے؟ کیا قیام پاکستان کا مقصد یہی تھا؟‘‘
قائداعظم کے ان ارشادات کا مطلب عیاں ہے۔ قائداعظم کا پاکستان ’’اسلام‘‘ کا پاکستان ہے۔ ’’عوام‘‘ کا پاکستان ہے۔ ’’غریبوں‘‘ کا پاکستان ہے۔ ’’سماجی انصاف‘‘ کا پاکستان ہے۔ غریبوں اور عوام کے ساتھ ’’ہمدردی‘‘ کا پاکستان ہے۔ بے ضمیر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا پاکستان نہیں۔ اُن جاگیرداروں، سرمایہ داروں کا جو ’’اسلام‘‘ کا پیغام بھول گئے ہیں۔ جو ’’خودغرض‘‘ ہوگئے ہیں، اور جن کی رگوں میں ’’استحصال‘‘ خون بن کر دوڑ رہا ہے۔ یہ ہے ’’اصل پاکستان‘‘۔
اب جو پاکستان ہمارے سامنے ہے اس کا حال سنیے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق معروف بلڈر ملک ریاض نے بحریہ ٹائون کے نام سے کراچی میں ایک رہائشی منصوبہ شروع کیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں 16896 ایکڑ زمین غیر قانونی طور پر حاصل کی اور اس پر تعمیراتی کام شروع کردیا۔ اس پورے عمل پر کئی سال صرف ہوئے مگر نہ سندھ حکومت کو معلوم ہوا کہ ملک ریاض غیرقانونی کام کررہے ہیں، نہ وفاقی حکومت کو معلوم ہوا کہ ملک ریاض قوانین کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں، ملک کے تمام خفیہ ادارے بھی کئی برس تک سوئے رہے۔ بالآخر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے اس سلسلے میں ازخود کارروائی کے اصول کے تحت تحرک کا مظاہرہ کیا اور ملک ریاض اور ان کا بحریہ ٹائون عدالت میں حاضر ہوا، اور ملک ریاض نے تسلیم کیا کہ انہوں نے 16896 ایکڑ اراضی غیرقانونی طور پر حاصل کی ہے۔
اصولی اعتبار سے جرم ثابت ہوجانے کے بعد مجرم کو سزا ملنی چاہیے تھی، مگر یہاں سے ایک اور کھیل شروع ہوا۔ اس کھیل کا انجام یہ ہوا کہ ملک ریاض نے ایک طویل عدالتی عمل کے بعد اپنے جرم کا ’’مالی خمیازہ‘‘ بھگتنے پر آمادگی ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ حکومت کو اپنے جرم کی پاداش میں 460 ارب روپے ادا کریں گے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم سے پہلے بہت سی قومیں اسی لیے ہلاک کی گئیں کہ وہ اپنے طاقت ور لوگوں کے جرائم سے صرفِ نظر کرتی تھیں اور کمزور لوگوں کو ان کے جرائم پر سزا دیتی تھیں۔ بدقسمتی سے قائداعظم کے ’’اسلامی‘‘ اور ’’عوامی‘‘ پاکستان پر قابض جرنیلوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنادیا ہے جہاں طاقت ور لوگ بڑے سے بڑا جرم کرکے سزا سے بچ جاتے ہیں، اور غریب اور کمزور لوگ معمولی جرائم میں بھیانک سزائوں سے گزرتے ہیں۔
ساری قوم جانتی ہے کہ جنرل یحییٰ خان کے دور میں 16 دسمبر 1971ء کے روز پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ حکومتِ پاکستان نے ملک کے چیف جسٹس، جناب جسٹس حمودالرحمن کی سربراہی میں حمودالرحمن کمیشن کے عنوان سے ایک کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل یحییٰ سمیت پانچ جرنیلوں کے کورٹ مارشل کا فیصلہ سنایا، کئی بریگیڈئیرز اور نچلے عہدوں پر فائز فوجی افسروں کو سزائیں دینے کی سفارش کی۔ مگر نہ کسی پر مقدمہ چلا اور نہ کسی کو سزا ہوئی۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف نے 400 ارب روپے سے زیادہ کے قرضے معاف کیے۔ یہ رقم جنرل ضیاء اور جنرل پرویز کو جہیز میں نہیں ملی تھی۔ یہ غریب ملک اور غریب قوم کی امانت تھی، مگر جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز سے کسی عدالت نے کبھی نہ پوچھا کہ آپ کے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ سپریم کورٹ نے ایک موقع پر جنرل مرزا اسلم بیگ کو توہینِ عدالت کے مقدمے میں طلب کرلیا تھا۔ مقدمہ چلا اور عدالت نے فیصلہ دیا کہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے توہینِ عدالت کی ہے، مگر عدالت نے انہیں یہ کہہ کر کوئی سزا نہ دی کہ ان کا عدالت میں حاضر ہوجانا ہی ان کی سزا ہے۔ یہ کل ہی کی بات ہے کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی نے بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت کے ساتھ مل کر اسپائی کرونیکلز کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ یہ بجائے خود ایک بھیانک جرم تھا۔ مگر جنرل درانی نے اس سے بھی بڑا اور ہولناک جرم یہ کیا کہ مذکورہ کتاب میں ایک پورا باب اکھنڈ بھارت کے عنوان سے تحریر فرمایا۔ اس باب میں ایک مرحلے پر کتاب مرتب کرنے والے نے را کے سابق سربراہ سے پوچھا کہ آپ اکھنڈ بھارت کے باب میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ را کے سابق سربراہ نے صاف کہا کہ اکھنڈ بھارت ایک ’’خیالی پلائو‘‘ یا ایک Fantasy ہے۔ مگر جنرل درانی نے را کے سابق سربراہ سے زیادہ بھارتی بن کر فرمایا کہ اکھنڈ بھارت کے تصور کو حقیقت بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس باب میں یہ انکشاف بھی کیا کہ میاں نوازشریف کے بردارِ خورد میاں شہبازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کو ایک کرنے کے منصوبے پر بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کے ساتھ بات چیت کررہے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ جی ایچ کیو نے جنرل درانی کی اس کتاب کا نوٹس لیا، ان کا نام ای سی ایل پر ڈالا اور بالآخر فیصلہ سنایا کہ جنرل درانی نے یہ کتاب لکھ کر پاک فوج کے ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔ مگر بدقسمتی سے انہیں ان کی غداری کی سزا نہ دی۔ کہا کہ جنرل درانی کو ان کی مالی مراعات سے محروم کردیا گیا ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے بھیانک جرم کے مرتکب کو بلایا جائے اور اس کو گدگدیوں اور تیل مالش کے مرحلے سے گزار کر کہا جائے کہ دیکھیے ہم نے سزا دے دی۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر کسی سول شخص نے را کے سابق سربراہ کے ساتھ ملاقات بھی کرلی ہوتی تو اس کے چیتھڑے بھی ڈھونڈے سے نہ ملتے، مگر جنرل درانی چونکہ جرنیل ہیں اس لیے وہ را کے سابق سربراہ سے مل بھی سکتے ہیں، ان کے ساتھ مل کر کتاب بھی لکھ سکتے ہیں، اور اس کتاب میں اکھنڈ بھارت زندہ باد کا نعرہ بھی لگا سکتے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں اندھیر نگری چوپٹ راج۔
اسی اندھیر نگری چوپٹ راج کا مظاہرہ ملک ریاض اور ان کے نام نہاد بحریہ ٹائون کے حوالے سے ہورہا ہے۔ قائداعظم کے اسلامی، عوامی اور غریب پاکستان میں ایک کروڑ گھروں کی کمی ہے۔ کراچی ملک کا امیر ترین اور جدید ترین شہر کہلاتا ہے، مگر کراچی کے ایک کروڑ سے زیادہ لوگ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیںکہ کراچی اور اس کے مضافات کی زمین انتہائی اہم اور قیمتی ہے۔ اس لیے کہ اس زمین پر سستے گھر بناکر لاکھوں لوگوں کو آباد کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس زمین کے 16 ہزار 896 ایکڑ رقبے پر ملک ریاض نے قبضہ کرلیا اور لاکھوں امیروں کو آباد کرکے کروڑوں غریبوں کو غیرآباد کردیا۔ ایک وقت تھا کہ متوسط طبقے کے لوگ کراچی میں گھر خرید بھی سکتے تھے اور گھر بنا بھی سکتے تھے، مگر اب مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ غریب کیا متوسط طبقے کے لوگ بھی نہ کراچی میں گھر بناسکتے ہیں، نہ گھر خرید سکتے ہیں۔ انہیں رہائش گاہ کی سہولت حکومت اور ریاست کی مہربانی ہی سے فراہم ہوسکتی ہے، مگر ریاست کے تمام اداروں نے ملک ریاض کو کراچی کی انتہائی قیمتی زمین ہڑپ کرنے کی اجازت دی۔ ایسا کرکے انہوں نے لاکھوں غریب خاندانوں کے حق پر ڈاکا ڈالا۔ ملک ریاض کو بھیانک جرم کی پاداش میں سزا ہوتی تو مستقبل میں کوئی ملک ریاض عوامی حق پر ڈاکا ڈالنے کی جرأت نہ کرتا۔ مگر ریاست کے تمام اداروں نے ملک ریاض کو سزا سے بچاکر ملک ریاض جیسے لوگوں کو پیغام دیا ہے کہ جرنیلوں، جاگیرداروں یا سرمایہ داروں کے پاکستان میں صرف چھوٹے جرائم ’’جرم‘‘ ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں بڑے جرائم کی کوئی سزا نہیں۔ ریاست کے تمام ادارے زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ جو شخص ہزاروں، لاکھوں یا کروڑوں کی لوٹ مار کرے گا مارا جائے گا، البتہ کوئی اربوں کی لوٹ مار کرے گا تو عدلیہ سمیت ریاست کے تمام ادارے اس کی مدد اور پشت پناہی کریں گے۔
ملک ریاض نے حکومت کو 460 ارب روپے ادا کرنے کا اعلان کیا ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے غیر قانونی تعمیرات سے کتنی دولت پیدا کررکھی ہے۔ اس دولت کا ایک پہلو یہ ہے کہ ملک ریاض اپنی ناجائز دولت کی وجہ سے سیاسی دائرے میں ’’بادشاہ گر‘‘ کہلاتے رہے ہیں۔ معاشرے میں ’’جعلی مذہبیت‘‘ اور جعلی ’’انسانیت‘‘ اتنی عام ہوگئی ہے کہ ملک ریاض اور ان جیسے لوگ ایک ہاتھ سے ملک و قوم کو لوٹتے ہیں، غریبوں کے حق پر ڈاکا ڈالتے ہیں، اور دوسرے ہاتھ سے وہ غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں، اسکول چلاتے ہیں، مریضوں کا علاج کراتے ہیں اور ’’مہذب انسان‘‘ اور ’’غریب پرور‘‘ کہلاتے ہیں۔ ملک ریاض کی طاقت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جب کچھ عرصہ قبل ان کے خلاف فیصلہ دیا تو روزنامہ جسارت اور روزنامہ ڈان کے سوا سپریم کورٹ کے فیصلے کی خبر پاکستان کے کسی بڑے اخبار میں شائع ہوئی، نہ کسی اہم ٹیلی ویژن چینل سے نشر ہوئی۔ ایک جانب ذرائع ابلاغ کے مالکان اور عامل صحافی شکایت کرتے ہیںکہ اسٹیبلشمنٹ ان کی آزادیِ اظہار کو محدود کررہی ہے، دوسری جانب صورتِ حال یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے مالکان اور عامل صحافیوں نے خود ملک ریاض کو اپنے لیے اسٹیبلشمنٹ بنالیا ہے۔
ملک ریاض اور ذرائع ابلاغ کا ایک اور ہولناک پہلو حال ہی میں عیاں ہوا ہے۔ ملک ریاض نے 460 ارب روپے حکومت کو دینے کا وعدہ کیا تو گویا انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے زمین حاصل کرکے ملک کے خزانے کو 460 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ملک ریاض اور بحریہ ٹائون کو اچھے معنوں میں ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر 24 مارچ کے کئی اہم اخبارات میں جو کچھ رپورٹ ہوا ملاحظہ کیجیے۔
روزنامہ جنگ کراچی نے 24 مارچ 2019ء کو اپنے صفحہ اول پر ایک شاندار رنگین تصویر کے ساتھ دو کالمی خبر شائع کی، خبر کے اہم پہلو یہ تھے:
’’یوم پاکستان کی مناسبت سے 23 مارچ ہفتے کی شب بحریہ ٹائون کراچی میں ایفل ٹاور کے مقام پر شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ بحریہ ٹائون میں منعقدہ تقریب میں شاندار آتش بازی کے مظاہرے نے حاضرین کے لیے یوم پاکستان کی خوشیوں کو چار چاند لگا دیئے۔ شاندار آتش بازی سے سجی تقریب کا اہتمام بحریہ ٹائون کراچی کے رہائشیوں اور انویسٹرز کی جانب سے کیا گیا تھا جس نے حاضرین پر سحر طاری کردیا… تقریب میں بحریہ ٹائون کے کنٹری ہیڈ شاہد قریشی بطور مہمانِ خاص شریک ہوئے۔ کراچی میں رہائش پذیر آصف کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمارے لیے بہت ہی خوش آئند ثابت ہوا ہے اور آج پاکستان ڈے کے موقع پر اس جشن نے خوشی کو دوبالا کردیا ہے۔ بحریہ ٹائون کراچی میں رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد بحریہ ٹائون کے پُرآسائش اور عملی لائف اسٹائل سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ بحریہ ٹائون نہ صرف پاکستان بلکہ ایشیا کا سب سے بڑا پرائیویٹ رئیل اسٹیٹ گروپ ہے۔ بحریہ ٹائون کراچی میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے پرائیویٹ رئیل اسٹیٹ پروجیکٹ کی ڈیولپمنٹ میں مصروفِ عمل ہے۔‘‘ (روزنامہ جنگ کراچی، 24 مارچ 2019ء)
یہ خبر اگر بحریہ ٹائون کے رہائشیوں اور انویسٹرز کے حوالے سے ہوتی تو اس کا کوئی نہ کوئی جواز ہوتا۔ بحریہ ٹائون میں پلاٹ یا گھر خریدنے والے، یا وہاں سرمایہ کاری کرنے والے ملک ریاض اور بحریہ ٹائون کے جرم کے ذمہ دار نہیں۔ مگر خبر میں بحریہ ٹائون کے کنٹری ہیڈ کی موجودگی اور ان کے نام کی رپورٹنگ کا کوئی اخلاقی یا صحافتی جواز نہیں تھا، اس لیے کہ ملک ریاض اور بحریہ ٹائون نے سپریم کورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے بحریہ ٹائون کی زمین غیر قانونی طور پر حاصل کی، چنانچہ بحریہ ٹائون کے کنٹری ہیڈ کو بحریہ ٹائون کے رہائشیوں اور انویسٹرز کے ساتھ منسلک کرنا ’’مجرموں‘‘ کو ’’معزز‘‘ بناکر پیش کرنا ہے جس سے ملک اور معاشرے کی اخلاقیات کے نظام پر گہرا منفی اثر پڑے گا۔ اسی طرح خبر کے آخری حصے میں بحریہ ٹائون کے ذکر کو ’’ذکرِ خیر‘‘ میں ڈھال کر رپورٹ کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں، اس لیے کہ بحریہ ٹائون ایک ادارے کی حیثیت سے اپنا مجرم ہونا قبول کرچکا ہے۔
اس سلسلے میں روزنامہ دنیا کراچی کا حال بھی ملاحظہ کرلیجیے۔ روزنامہ دنیا کراچی نے بھی 24 مارچ 2019ء کو بحریہ ٹائون میں آتش بازی کے حوالے سے صفحہ اول پر رنگین تصویر کے ساتھ دو کالمی خبر شائع کی ہے۔ خبر کے اہم حصے یہ ہیں:
’’بحریہ ٹائون میں 23 مارچ کو ایفل ٹاور کے مقام پر زبردست آتش بازی کا مظاہرہ۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی سی ای او بحریہ ٹائون علی احمد ریاض ملک اور کنٹری ہیڈ شاہد قریشی تھے۔ چند روز قبل بحریہ ٹائون کے حق میں آنے والے فیصلے کے بعد بحریہ ٹائون میں تمام مشینری اور تعمیراتی کاموں کا باضابطہ آغاز ہوگیا ہے۔ کراچی کے رہائشی آصف کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمارے لیے بہت ہی خوش آئند ثابت ہوا ہے۔ بحریہ ٹائون میں آباد رہائشیوں کی بڑی تعداد بحریہ ٹائون کے پُرآسائش اور عملی لائف اسٹائل سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ بحریہ ٹائون نہ صرف پاکستان بلکہ ایشیا کا سب سے بڑا پرائیویٹ رئیل اسٹیٹ گروپ ہے‘‘۔ (روزنامہ دنیا، 24 مارچ 2019ء)
جیسا کہ ظاہر ہے یہ خبر بھی صرف بحریہ ٹائون میں رہائش پذیر لوگوں اور سرمایہ کار افراد کے حوالے سے نہیں ہے، بلکہ اس میں بھی بحریہ ٹائون کے عہدیدار موجود ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ روزنامہ جنگ کی خبر میں بھی کراچی کے کسی رہائشی ’’آصف‘‘ کا ذکر ہے اور روزنامہ دنیا کی خبر میں بھی کراچی کے رہائشی ’’آصف‘‘ کا ذکر ہے۔ اسی طرح روزنامہ جنگ کی خبر کا اختتام بحریہ ٹائون کی تعریف کے حوالے سے جن فقروں پر ہوا ہے، روزنامہ دنیا کی خبر کا اختتام بھی بحریہ ٹائون کی تعریف پر مبنی انہی فقروں پر ہوا ہے جو جنگ کی خبر کے آخر میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ ’’یکسانیت‘‘ حیرت انگیز ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک ریاض اور بحریہ ٹائون کی ’’رپورٹنگ‘‘ کا معاملہ ہو تو جنگ اور دنیا کا فرق مٹ جاتا ہے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی ضروری ہے کہ روزنامہ دنیا نے بحریہ ٹائون کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ’’مثبت‘‘ قرار دیا ہے۔ اس فقرے سے یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ثابت ہوگیا ہے کہ ملک ریاض اور بحریہ ٹائون نے کوئی ’’جرم‘‘ نہیں کیا۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک ریاض اور بحریہ ٹائون نے جرم کیا ہے، بس سپریم کورٹ نے اس جرم کے حوالے سے ملک ریاض کی 460 ارب روپے کی پیشکش کو قبول کرلیا ہے۔ لیکن اگر ملک ریاض نے کوئی جرم نہ کیا ہوتا تو وہ عدلیہ کو 460 ارب روپے دینے کا وعدہ کیوں کرتے؟ اب اس سلسلے میں روزنامہ ایکسپریس کراچی کی خبر پر ایک نگاہ ڈاللیتے ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس کراچی نے بھی بحریہ ٹائون میں ہونے والی تقریب کو صفحہ اول پر رنگین تصویر کے ساتھ دو کالمی خبر کی صورت میں رپورٹ کیا ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کراچی لکھتا ہے:
’’یوم پاکستان کے موقع پر بحریہ ٹائون کراچی میں ایفل ٹاور پر ہفتے کی شب منفرد نوعیت کی آتش بازی کا مظاہرہ کیا گیا…… تقریب کے مہمانِ خصوصی بحریہ ٹائون کے سی ای او علی احمد ریاض کے ہمراہ کنٹری ہیڈ شاہد قریشی تھے… اس موقع پر کراچی کے رہائشی آصف احمد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمارے لیے خوش آئند ثابت ہوا ہے… بحریہ ٹائون کے رہائشیوں کی بڑی تعداد بحریہ ٹائون کے پُرآسائش اور عملی لائف اسٹائل سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ بحریہ ٹائون نہ صرف پاکستان بلکہ ایشیا کا سب سے بڑا رئیل اسٹیٹ گروپ ہے۔ بحریہ ٹائون کراچی میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے رئیل اسٹیٹ پروجیکٹ میں مصروف ہے۔ (روزنامہ ایکسپریس۔ 24 مارچ 2019ء)
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا، روزنامہ ایکسپریس کراچی کی خبر بھی ہو بہو ویسی ہی ہے جیسی کہ روزنامہ جنگ اور روزنامہ دنیا کراچی کی خبر۔ اس خبر کے بھی تین حصے ہیں۔ پہلے حصے میں آتش بازی کے مظاہرے کا ذکر ہے۔ دوسرے حصے میں وہی کراچی کا رہائشی آصف موجود ہے جو دنیا اور جنگ کی خبر میں موجود ہے۔ تیسرے حصے میں بحریہ ٹائون کی انہی الفاظ اور فقروں میں تعریف ہے جن الفاظ اور فقروں میں دنیا اور جنگ میں بحریہ ٹائون کی تعریف کی گئی ہے۔ اس کو کہتے ہیں ؎
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
قائداعظم نے فرمایا ہے کہ صحافت اور قوم کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ صحافت جب عروج پر جاتی ہے تو قوم بھی عروج پر جاتی ہے۔ صحافت مجرموں کو ہیرو بنا کرپیش کرنے لگتی ہے تو قوم بھی مجرموں کو ہیرو سمجھنے لگتی ہے۔ بدقسمتی سے ملک ریاض اور ان کے بحریہ ٹائون کو ذرائع ابلاغ اس کے باوجود مثبت انداز میں رپورٹ کر رہے ہیں کہ ملک ریاض نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں اپنا جرم تسلیم کر کے اس کی تلافی کے طور پر 460 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اللہ پاکستان پر رحم کرے۔