مغرب کی ہزار سالہ دہشت گردی کا تسلسل
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر عیسائی دہشت گردوں کے خوفناک حملوں سے 50 مسلمان شہید اور 48 زخمی ہوگئے۔ عینی شاہدین کے مطابق پولیس موقع واردات پر دو منٹ میں پہنچ سکتی تھی، مگر وہ 20 منٹ میں مدد کو پہنچی۔ ایمبولینسوں نے بھی موقع پر پہنچنے میں 30 منٹ لیے، چنانچہ عیسائی دہشت گرد کامل اطمینان کے ساتھ مسلمانوں کو قتل کرتے رہے۔ دہشت گردوں کے سرغنے برنٹن ٹیرنٹ نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا بلکہ خصوصی کیمرے کے ذریعے قتلِ عام کو انٹرنیٹ پر براہِ راست نشر بھی کیا۔ بدقسمتی سے نیوزی لینڈ کی مساجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے والوں پر عیسائی دہشت گردوں کا حملہ کوئی اتفاقی معاملہ نہیں، بلکہ یہ حملہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی ایک ہزار سالہ دہشت گردی کا تسلسل ہے۔
دنیا کی تاریخ میں کوئی تہذیب ایسی نہیں گزری جو ایک ہزار سال تک دوسری تہذیب کے خلاف دہشت گردی کرتی رہی ہو۔ لیکن بدقسمتی سے جب مغرب ’’عیسائی مغرب‘‘ تھا تب بھی وہ اسلام اور اسلامی تہذیب کے خلاف دہشت گردی کررہا تھا، اور اب جبکہ مغرب کو ’’سیکولر ‘‘ہوئے کئی صدیاں ہوگئی ہیں تب بھی وہ اسلام اور اسلامی تہذیب کے خلاف دہشت گردی کررہا ہے۔
عیسائیت کی تاریخ میں سب سے بڑی شخصیت پوپ کی ہوتی ہے۔ کیتھولک فرقے میں پوپ کی شخصیت روحانی اور علمی اعتبار سے اتنی مرکزی ہے کہ اس کے بغیر عیسائیت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ پوپ کی روحانیت اور علمیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ عیسائیت کی روحانی ترقی اور علمی عروج کی معراج ہوتی ہے، مگر بدقسمتی سے 1095ء میں عیسائیت کی سب سے بڑی روحانی اور علمی شخصیت نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سب سے بڑی دہشت گردی ایجاد کی۔ 1095ء میں پوپ اُربن دوئم نے الفاظ کو میزائلوں میں ڈھالتے ہوئے فرمایا کہ اسلام ایک ’’شیطانی مذہب‘‘ ہے۔ پوپ نے کہا کہ میرے قلب پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ عیسائیوں کو آگے بڑھ کر اسلام اور اس کے پیروکاروں کو صفحہ ہستی سے مٹادینا چاہیے۔ پوپ نے تمام یورپی اقوام کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہونے کی تلقین کی اور 1099ء میں یورپ کی تمام اقوام عملاً ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوئیں اور انہوں نے مسلمانوں کے خلاف اُن صلیبی جنگوں کا آغاز کیا جو دو سو سال تک جاری رہیں۔ ان جنگوں کے پہلے مرحلے میں صلیبی فوجوں نے مسلمانوں کے روحانی اور سیاسی مرکز بیت المقدس کو تاراج کردیا۔ صلیبیوں نے بیت المقدس میں اس بڑے پیمانے پر قتل عام کیا کہ بیت المقدس کی گلیوں میں اتنا خون جمع ہوگیا کہ گھوڑوں کا چلنا مشکل ہوگیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جس وقت پوپ اربن نے اسلام اور مسلمانوں پر دہشت گردی مسلط کی اُس وقت کسی مسلمان فرد، گروہ یا ریاست نے عیسائیت یا عیسائیوں کی توہین نہیں کی تھی اور کسی یورپی ملک پر حملہ نہیں کیا تھا۔ اُس وقت نہ کوئی اسامہ بن لادن تھا، نہ کسی نیویارک کے ٹوئن ٹاور منہدم کیے گئے تھے۔ مطلب یہ کہ مغرب کی دہشت گردی کا کوئی پس منظر نہیں تھا۔
اس کہانی نے 19 ویں صدی میں ایک بار پھر خود کو دہرایا۔ مسلمان اپنے اپنے ملکوں میں چین کی زندگی بسر کررہے تھے کہ یورپی طاقتیں اپنے اپنے جغرافیے سے نکلیں اور برتر عسکری طاقت اور سازشوں کے ذریعے کم و بیش تمام مسلمان ملکوں پر قابض ہوگئیں۔ اِس بار مغرب نے دہشت گردی کے لیے white man’s burdenکے تصور کو بنیاد بنایا۔ اس تصور کا مطلب یہ تھا کہ مغرب باشعور ہے، مہذب ہے، اور عالمِ اسلام سمیت پورا مشرق بے شعور اور غیر مہذب ہے، چنانچہ سفید فام مہذب مغرب کا فرض ہے کہ وہ غیر مہذب لوگوں کو تہذیب سکھائے۔ مغرب نے مشرق کے ساتھ تعلق کی جو نوعیت بنائی اسے مغرب کے ممتاز اور نوبیل انعام یافتہ ادیب کپلنگ نے ایک فقرے یا مصرع میں بیان کردیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ مشرق آدھا شیطان ہے اور آدھا بچہ ہے۔ اس فقرے کی تشریح یہ ہے کہ مسلمانوں سمیت پورا مشرق مذہبی معنوں میں گمراہ ہے، اس لیے کہ اُس کے پاس کوئی سچا مذہب ہی نہیں ہے۔ مشرق بچہ ان معنوں میں ہے کہ اس کے ذہن کا ارتقا ہی نہیں ہوا، چنانچہ مشرق مغرب کی طرح ’’بالغ‘‘ نہیں ہے۔ اس کے پاس نہ مذہب ہے، نہ فلسفہ ہے، نہ سائنس ہے نہ ٹیکنالوجی ہے۔ لیکن یہ بات کہنے والا خود جہلِ مطلق کا شکار تھا۔ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ یورپ کے پاس جتنے علوم ہیں وہ سارے علوم مغرب کو مسلمانوں نے دیے ہیں۔ مسلمان ایسا نہ کرتے تو مغرب کبھی مغرب نہیں ہوسکتا تھا۔ بہرحال مغرب نے 19 ویں صدی میں ایک بار پھر مسلمانوں پر بغیر کسی جواز کے دہشت گردی مسلط کی۔ اس دہشت گردی کی تفصیل رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے۔ مغرب نے مسلمانوں کو سیاسی غلام بھی بنایا اور انہیں تہذیبی غلامی میں بھی مبتلا کیا۔ یہاں تک کہ مغرب مسلمانوں کے تمام مادی وسائل لوٹ کر لے گیا۔
مغرب نے عالم اسلام کے خلاف تیسری بڑی اور اجتماعی دہشت گردی اُس وقت شروع کی جب دوسری عالمی جنگ کے بعد مسلمان ممالک ایک ایک کرکے مغرب کے چنگل سے نکل گئے۔ تمام مغربی اقوام نے مسلمانوں میں کالے انگریزوں اور کالے فرانسیسیوں کا ایک طبقہ پیدا کردیا۔ اس طبقے میں بادشاہ بھی ہیں، جرنیل بھی اور نام نہاد سیاسی رہنما بھی۔ یہ لوگ عالمِ اسلام میں مغرب کے مفادات کے ترجمان بھی ہیں اور ان کے محافظ بھی۔ مغرب کی تیسری دہشت گردی کا ایک پہلو مغرب کے قائم کردہ اقتصادی اور مالی ادارے مثلاً عالمی بینک اور آئی ایم ایف وغیرہ ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے مغرب نے مسلمانوں کو معیشتوں کو قرضوں کے طوفان میں غرق کردیا ہے۔ دوسری جانب مغرب نے سیٹو اور سینٹو جیسے فوجی معاہدوں کے ذریعے مسلم ممالک کو عسکری میدان میں اپنا دستِ نگر بنالیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ 70 سال بعد بھی مسلم ممالک حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہیں۔ ان کی معیشتیں قرضوں تلے دبی ہوئی ہیں، اور مسلم دنیا کا کوئی رہنما مغرب کے سامنے سر اٹھا کر بات نہیں کرسکتا۔
عالمِ اسلام کے خلاف مغرب کی چوتھی اجتماعی دہشت گردی کا آغاز نائن الیون کے بعد ہوا۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ آج تک کسی کو یہ معلوم نہیں کہ نائن الیون کا ذمے دار کون ہے؟ خود مغرب میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو نائن الیون کو امریکہ کے حوالے سے Inside Job کہتے ہیں اور سمجھتے ہیںکہ یہ کام امریکی اسٹیبلشمنٹ نے خود کرایا ہے۔ بدقسمتی سے حالات و واقعات نے اس خیال پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔ اس سلسلے میں چند واقعات کا تذکرہ کافی ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کے صدر جارج بش نے امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی تقریر میں’’کروسیڈ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی، اور کروسیڈ کا مطلب ’’صلیبی جنگ‘‘ ہے۔ اس کے معنی تھے کہ امریکی صدر عالم اسلام کے خلاف ایک جدید صلیبی جنگ کا آغار کرچکے ہیں۔ کروسیڈ کے لفظ پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو وہائٹ ہائوس نے وضاحت کی کہ تقریر کرتے ہوئے جارج بش کی زبان پھسل گئی۔ حالانکہ جارج بش فی البدیہہ تقریر نہیں کررہے تھے بلکہ وہ لکھی ہوئی تقریر کررہے تھے، اور لکھی ہوئی تقریر میں زبان نہیں پھسلا کرتی۔ جارج بش کی تقریر کے بعد اٹلی کے وزیراعظم سلویو برلسکونی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے اسی طرح وہ اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کا کوئی ترجمان نہیں، ہوتا تو وہ اٹلی کے وزیراعظم سے پوچھتا کہ مغرب تو اپنی جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کہہ رہا ہے پھر مغرب کے ایک اہم رہنما کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے، اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے اسی طرح اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی؟ اتفاق سے اس کے بعد اس سے بھی زیادہ بڑا واقعہ ہوا۔ امریکی صدر جارج بش کے اٹارنی جنرل ایش کرافٹ نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عیسائیت کا خدا، اسلام کے خدا سے برتر ہے، اس لیے کہ عیسائیت کے خدا نے انسانیت کی نجات کے لیے اپنے بیٹے یعنی حضرت عیسیٰ کو قربان کردیا، اس کے برعکس اسلام کا خدا اپنی عظمت کے اظہار کے لیے خود مسلمانوں سے جہاد کے میدان میں قربانی طلب کرتا ہے۔ مسلمانوں کا کوئی ترجمان اور والی وارث ہوتا تو جارج بش اور ان کے اٹارنی جنرل سے پوچھتا کہ آپ دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑنے نکلے ہیں یا اسلام کے تصورِ خدا اور اسلامی تہذیب کو شکست دینے نکلے ہیں؟ ان واقعات کے کچھ عرصے بعد بی بی سی ورلڈ کے پروگرام Hard Talk میں امریکی جنرل کلارک کا انٹرویو نشر ہوا۔ جنرل کلارک یورپ میں نیٹو کی فورسز کے سابق کمانڈر تھے۔ انہوں نے کوئی لفظ چبائے بغیر کہاکہ مغرب اسلام کو Define کرنے کے لیے متحرک ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ طے یہ کرنا ہے کہ آیا اسلام ایک پُرامن مذہب ہے جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں، یا اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو تشدد پر اکساتا ہے۔ ان تمام ناقابلِ تردید حقائق کا ایک ہی مفہوم تھا، اور وہ یہ کہ جس طرح 1099ء میں ’’عیسائی مغرب‘‘ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی ’’ایجاد‘‘ کررہا تھا، ٹھیک اسی طرح 19 ویں اور 20 ویں صدی میں ’’سیکولر مغرب‘‘ اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی پر مائل تھا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ 1095ء میں ایک پوپ نے اسلام کو شیطانی مذہب کہہ کر اس کی توہین کی، اور پھر 2009ء میں ایک اور پوپ بینی ڈکٹ شش دہم نے یہ کہہ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی کہ آپ کیا نیا لائے سوائے ان احکامات کے جنہیں آپ نے تلوار کے زور پر آگے بڑھایا۔ بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد سے اب تک مغرب کبھی ’’عیسائی مغرب‘‘ بن کر، کبھی ’’سیکولر مغرب‘‘ بن کر اسلام اور مسلمانوں پر حملہ آور ہورہا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ ہمارے یہاں امام غزالیؒ اور ایک عام مسلمان کے کردار و عمل میں زمین آسمان کا فرق ہے، مگر مغرب کی تاریخ یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ’’پوپ‘‘، امریکہ کے صدر جارج بش، امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نیوزی لینڈ میں دو مساجد میں دہشت گردی کرنے والے 28 سالہ برنٹن ٹیرنٹ میں کوئی فرق نہیں۔ ان سب کی اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی سطح بھی ایک ہے، اور نفرت کے اظہار کا طریقہ بھی ایک ہے۔
کہنے کو برنٹن ٹیرنٹ ایک ’’عام دہشت گرد‘‘ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک ’’صلیبی نفسیات‘‘ کا حامل شخص ہے۔ ’’احمق مسلمانوں‘‘ کی بات اور ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیا آج بھی صلیبی جنگوں کی نفسیات کے زیراثر اسلام، پیغمبرِ اسلام اور خود مسلمانوں سے نفرت کرتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ نیوزی لینڈ کی مساجد میں دہشت گردی کرنے والے برنٹن ٹیرنٹ نے جو دستاویز انٹرنیٹ پر جاری کی ہے اس میں اُن صلیبی جنگوں کا ذکر ہے جن میں عیسائیوں نے مسلمانوں کو شکست دی۔ مثلاً اس نے اپنی بندوق پر اس جنگ کا حوالہ درج کیا جسے عربی میں ’’بلاط الشہدا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ دنیا کی پندرہ بڑی جنگوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ جنگ فرانس کے شہر توزر کے قریب لڑی گئی۔ اس جنگ کے بارے میں مغرب کے ممتاز مؤرخ ایڈورڈ گبن نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ’تاریخ زوالِ روما‘ میں لکھا ہے کہ ’’اگر اس جنگ میں یورپ کو شکست ہوجاتی تو آج پورا یورپ مسلمانوں کے زیرنگیں ہوتا اور اوکسفرڈ میں قرآن پڑھایا جارہا ہوتا‘‘۔ برنٹن ٹیرنٹ نے اپنی بندوق پر1571ء میں ہونے والی ایک اور مسیحی جنگ کا حوالہ دیا ہے۔ اس جنگ میں بھی عیسائیوں کو مسلمانوں پر فتح حاصل ہوئی۔ برنٹن ٹیرنٹ کی بندوق پر 1529ء کی اُس جنگ کا بھی حوالہ موجود ہے جو صلیبیوں اور خلافتِ عثمانیہ کے درمیان ہوئی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو برنٹن ٹیرنٹ صرف ایک ’’نسل پرست‘‘ اور صرف ایک ’’سفید فام‘‘ نہیں ہے بلکہ وہ ایک ’’صلیبی‘‘ بھی ہے، اور اس نے نیوزی لینڈ کی مساجد میں نہتے نمازیوں کو شہید کرکے ایک ’’صلیبی جنگ‘‘ میں ’’شرکت‘‘ کی ہے اور معاذ اللہ ’’شیطانی مذہب‘‘ اور اس کے شیطان جیسے پیروکاروں کو ’’ٹھکانے‘‘ لگایا ہے۔ مگر مغربی دنیا کے سیاسی رہنما اور ذرائع ابلاغ برنٹن ٹیرنٹ کی دہشت گردی کو نہ ایک ہزار سال کی تاریخ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں، نہ بیان کررہے ہیں۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کی دہشت گردی ’’اسلامی‘‘ بھی ہوتی ہے اور ’’پاکستانی‘‘ اور ’’سعودی‘‘ بھی ہوتی ہے، مگر مغرب کے دہشت گردوں کی دہشت گردی نہ ’’عیسائی‘‘ ہوتی ہے، نہ ’’سیکولر‘‘ ہوتی ہے، نہ ’’امریکی‘‘ ہوتی ہے، نہ ’’آسٹریلوی‘‘ ہوتی ہے۔ چنانچہ برنٹن ٹیرنٹ کو مغرب کے اکثر ذرائع ابلاغ نے ’’دہشت گرد‘‘، اور اس کے حملے کو ’’دہشت گردی‘‘ قرار دینے سے گریز کیا۔ مغرب کے ذرائع ابلاغ کو برنٹن ٹیرنٹ کا ’’عیسائی‘‘ اور ’’صلیبی‘‘ پس منظر بھی نظر نہیں آیا۔ وہ برنٹن ٹیرنٹ کی دہشت گردی کو “Shooting” اور خود برنٹن ٹیرنٹ کو “Shooter” کہتے رہے۔ مسلمان دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں تو ان کا تعلق ہمیشہ کسی نہ کسی ’’تنظیم‘‘ سے ہوتا ہے، مگر مغرب کے دہشت گرد دہشت گردی کرتے ہیں تو مغرب کے ذرائع ابلاغ انہیں ’’تنہا فرد‘‘ یا Lone Wolf کہہ کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ مغرب کا پورا معاشرہ دہشت گرد تھوڑی ہے بلکہ اس کے ’’چند افراد‘‘ ایسے ہیں۔ برنٹن ٹیرنٹ کے سلسلے میں بھی یہی ہورہا ہے، اسے Lone wolf قرار دیا جارہا ہے۔ اور اہلِ مغرب ایسا کیوں نہ کریں! خود مسلم دنیا کے مغرب زدگان بھی یہی کررہے ہیں۔ روزنامہ ڈان پاکستان کا سب سے بڑا انگریزی اخبار ہے، اس نے نیوزی لینڈ کے ہولناک واقعات کو صفحۂ اوّل پر چار کالموں میں درج ذیل سرخی کے ساتھ شائع کیا ہے:
“New Zealand in a daze after mosque attack”
اس سرخی کے اہم ترین الفاظ دو ہیں۔ پہلا لفظ “Daze” ہے، اس کے معنی ہیں حیرانی، صدمے کی وجہ سے ردعمل ظاہر کرنے کے قابل نہ ہونا۔ اس اعتبار سے اس سرخی کا ترجمہ یہ ہے:
’’نیوزی لینڈ مسجد حملے کے بعد حیران‘‘۔
اس کا ایک اور ترجمہ یہ ہوسکتا ہے:
’’نیوزی لینڈ مسجد پر حملے کے بعد صدمے سے دوچار‘‘۔
اس سرخی کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے:
’’مساجد پر حملے کے بعد نیوزی لینڈ حیران و پریشان‘‘۔
جیسا کہ ظاہر ہے اس سرخی میں نہ کوئی ’’دہشت گرد‘‘ ہے، نہ اس میں کہیں ’’دہشت گردی‘‘ ہے، نہ اس میں کوئی ’’عیسائی‘‘ ہے، نہ اس میں کوئی ’’مسلمان‘‘ ہے، نہ اس سرخی میں کسی شیطانیت کی نشاندہی ہے۔
اس سرخی کا دوسرا اہم لفظ “Attack” ہے۔ ہم ڈان کی خبروں سے ایسی درجنوں خبریں نکال کر دکھا سکتے ہیں جہاں ڈان نے سرخی میں Attack کے بجائے “Terrorism” کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اگر حملہ کسی مسلمان نے کیا ہوتا تو ڈان اب بھی سرخی میں Terrorism ہی کی اصطلاح استعمال کرتا، مگر چونکہ مسلمان دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں اس لیے مساجد اور مسلمانوں پر صرف ’’حملہ‘‘ ہوا ہے۔ ڈان کی سرخی کی اسلام اور مسلمانوں سے لاتعلقی کو محسوس کرنا ہو تو اس دن کے اردو اخبارات کی سرخیوں پر نظر ڈال لینی چاہیے۔ مثلاً اس دن روزنامہ جسارت کی شہ سرخی یہ تھی:
’’نیوزی لینڈ میں عیسائی دہشت گردوں کے 2 مساجد پر حملے، 49 نمازی شہید‘‘۔
اس دن روزنامہ جنگ کراچی کی شہ سرخی یہ تھی:
’’مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والوں کی دہشت گردی‘‘۔
اس روز کے روزنامہ دنیا کراچی کی شہ سرخی اس طرح تھی:
’’نیوزی لینڈ، دو مساجد پر دہشت گرد حملہ، 49 شہید‘‘۔
ڈان نے صرف اپنی شہ سرخی ہی میں ’’تماشا‘‘ نہیں دکھایا، اس نے 16 مارچ 2019ء کے اداریے میں بھی ’’کمالات‘‘ دکھائے ہیں۔ ڈان نے اداریے میں لکھا ہے کہ نیوزی لینڈ کے واقعے سے اب مسلم دنیا کے ان Radical عناصر کو آکسیجن فراہم ہوگی جو مغرب اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں جس سے کبھی نہ ختم ہونے والی نفرت کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ نہ صرف یہ، بلکہ اس صورتِ حال میں ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا بیانیہ بھی سامنے آجائے گا اور قومیں انتہا پسندوں کے تشدد کی زد میں ہوں گی۔ سوال یہ ہے کہ مسلم دنیا میں ایسا کون ہے جو مغرب اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلاتا ہے؟ مغرب کے خلاف کسی کو نفرت پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے، مغرب یہ کام خود ہی کرتا رہتا ہے، مسلمان تو بیچارے صرف مغرب کی دہشت گردیوں کی تاریخ اسناد کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور بس۔ رہیں مسلم دنیا کی مذہبی اقلیتیں، تو وہ اتنی چھوٹی ہیں کہ ان سے کسی مسلم ملک اور کسی مسلم معاشرے کو کوئی خطرہ اور مسئلہ ہی نہیں۔
اس کے برعکس پوری مغربی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ امریکہ، اور یورپ کے 28 ممالک میں گزشتہ چند برسوں کے دوران مسلمانوں پر حملوں میں کہیں 30 فیصد، کہیں 50 فیصد اور کہیں اس سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ مغربی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف Hate Speech کا دائرہ بھی وسیع ہورہا ہے۔ یورپ کے کئی ممالک میں برقعے اور اسکارف پر پابندی لگائی جاچکی ہے۔ یہ ثقافتی جبر، بلکہ ’’ثقافتی دہشت گردی‘‘ کی ایک صورت ہے۔ کہا جارہا ہے کہ مغرب میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ان پر حملوں کا سبب ہے۔ مگر نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی آبادی کُل آبادی کا صرف ایک فیصد ہے، اس کے باوجود وہاں 50 مسلمانوں کو شہید اور 48 مسلمانوں کو زخمی کردیا گیا ہے۔ نیوزی لینڈ کو مغرب کا پُرامن ترین ملک کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیوزی لینڈ کا عالمی سیاست اور اس کی گرمی سے کوئی تعلق نہیں، مگر نیوزی لینڈ میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات بتا رہی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے مغرب کا پُرامن ترین ملک بھی محفوظ نہیں۔
مغرب اور مسلمانوں کے تعلق کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے صلیبی جنگوں کے زمانے میں بھی مغرب کے خلاف ’’دفاعی جنگ‘‘ لڑی۔ نوآبادیاتی دور میں بھی مغرب کے خلاف دفاعی انداز میں معرکہ آرائی کی۔ اور نائن الیون کے بعد سے اب تک بھی مسلمان دونوں ہاتھوں میں ڈھالیں لیے کھڑے ہیں۔ بدقسمتی سے مغرب کے دونوں ہاتھوں میں ہمیشہ تلواریں رہی ہیں، مگر عجیب بات یہ ہے کہ مغرب کی نظر میں ہم 11 ویں صدی میں بھی دہشت گرد تھے، نوآبادیاتی دور میں بھی ’’باغی‘‘ تھے، اور آج بھی مغرب مسلمانوں کو ’’دہشت گرد‘‘ کہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب اور ظلم، مغرب اور ناانصافی، اور مغرب اور دہشت گردی ہم معنی الفاظ ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں مغرب خود اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کا ’’باغی‘‘ ہے۔ اس کی بغاوت کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ
نٹشے نے کہا خدا مرگیا
مارلو نے کہا انسان مر گیا
لارنس نے کہا انسانی تعلقات کا ادب مر گیا
دریدا نے کہا لفظ کے معروضی معنی مرگئے۔
سوال یہ ہے کہ جب مغرب نے ہر قابلِ قدر، اہم اور جمیل شے کو فنا کردیا تو پھر شیطان صفت مغرب کے سوا کیا باقی رہ گیا؟ شیطان صفت مغرب کی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے اپنی معرکہ آرا تصنیف ’تنقیحات‘ میں مغرب کو ’’جاہلیتِ خالصہ‘‘ اور ’’شجرِ خبیث‘‘ خوامخواہ نہیں کہا تھا۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مغرب میں اسلام اور مسلمانوں پر حملوں کی راہ ہموار کی ہے، مگر جیسا کہ اس مضمون سے ظاہر ہے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی میں تو مغرب کے دو پوپ، درجنوں بڑے سیاست دان اور ہزاروں ذرائع ابلاغ شامل ہیں۔ مغرب کے رہنمائوں نے مغرب اور پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کا ’’سوئمنگ پول‘‘ نہیں، ’’سمندر‘‘ خلق کیا ہوا ہے۔